*ملے تو ہم آج بھی ہیں لیکن،*
*نہ میرے دل میں وہ تشنگی تھی.*
*کہ تجھ سے مل کر کبھی نہ بچھڑوں،*
*نہ آج تجھ میں وہ زندگی تھی.*
*کہ جسم و جاں میں ابال آئے،*
*نہ خواب زاروں میں روشنی تھی.*
*نہ میری آنکھیں چراغ کی لو،*
*نہ تجھ میں ہی خود سپردگی تھی.*
*نہ بات کرنے کی کوئی خواہش،*
*نہ چپ ہی میں خوبصورتی تھی.*
*مجسموں کی طرح تھے دونوں،*
*نہ دوستی تھی نہ دشمنی تھی.*
*مجھے تو کچھ یوں لگا ہے جیسے،*
*وہ ساعتیں بھی گزر گئی ہیں.*
*کہ جن کو ہم لا زوال سمجھے،*
*وہ خواہشیں بھی تو مر گئی ہیں.*
*جو تیرے میرے لہو کی حدت،*
*کو آخرش برف کر گئی ہیں.*
*محبتیں شوق کی چٹانوں،*
*سے گھاٹیوں میں اتر گئی ہیں.*
*وہ قربتیں وہ جدائیاں سب،*
*غبار بن کر بکھر گئی ہیں.*
*اگر یہ سب کچھ نہیں تو بتلا،*
*وہ چاہتیں اب کدھر گئی ہیں.*
0 Comments